بدھ، 26 اکتوبر، 2016

جگر چھلنی سہی غم میں ہنسی ہونٹوں پہ اب بھی ہے

دل ناشادکے بجھتے ہوۓ ارمان کی مانند
سبھی سپنے ہوۓ جاتے ہیں قبرستان کی مانند

دیار دل کے موسم میں خزاں ہے اب مکیں ایسے
میں اپنے گھر میں بھی لگتا ہوں اک مہمان کی مانند

یہ جو ہجر مسلسل ہے مجھے جینے نہیں دیتا 
کسی بیمار کے بگڑے ہوۓ سرطان کی مانند

ہوئی مدت رہ دنیا پہ لاوارث پڑا ہوں میں 
مسافر کے کسی بھولے ہوۓ سامان کی مانند

مرا ہمدم بھی پاگل ہے ہمیشہ درد دیتا ہے
سمجھتا ہی نہیں میری دل نادان کی مانند

کبھی ملتے تھے ہم گنگا میں جمنا کی طرح لیکن
بچھڑ کر ہو گۓ ھیں ہجر کے عنوان کی مانند

جگر چھلنی سہی غم میں ہنسی ہونٹوں پہ اب بھی ہے
کڑی مشکل سے بچنے کے کسی امکان کی مانند

بڑا دم ہے تجھے کھو کر بھی زندہ ہوں اسد لیکن 
کسی حالات سے ہارے ہوۓ انسان کی مانند


کوئی تبصرے نہیں:
Write تبصرے

مشہور اشاعتیں

مشہور اشاعتیں