حبیب جالب لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
حبیب جالب لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

بدھ، 27 جولائی، 2016

ہم نے سُنا تھا صحنِ چمن میں کیف کے بادل چھائے ہیں

ہم نے سُنا تھا صحنِ چمن میں کیف کے بادل چھائے ہیں
ہم بھی گئے تھے جی بہلانے، اشک بہا کر آئے ہیں
پُھول کھِلے تو دل مُرجھائے، شمع جلے تو جان جلے
ایک تمہارا غم اپنا کر، کتنے غم اپنائے ہیں
ایک سُلگتی یاد، چمکتا درد، فروزاں تنہائی
پوچھو نہ اس کے شہر سے ہم کیا کیا سوغاتیں لائے ہیں
سوئے ہوئے جو درد تھے دل میں*، آنسو بن کر بہہ نکلے
رات ستاروں کی چھاؤں میں یاد وہ کیا کیا آئے ہیں
آج بھی سُورج ڈُوب گیا، بے نُور اُفق کے ساگر میں
آج بھی پُھول چمن میں تُجھ کو بِن دیکھے مُرجھائے ہیں
ایک قیامت کا سنّاٹا، ایک بلا کی تاریکی
ان گلیوں سے دُور، نہ ہنستا چاند، نہ روشن سائے ہیں
پیار کی بولی بول نہ جالبؔ! اس بستی کے لوگوں سے
ہم نے سُکھ کی کلیاں کھو کر، دُکھ کے کانٹے پائے ہیں

حبیب جالبؔ


دل کی بات لبوں پر لا کر، اب تک ہم دُکھ سہتے ہیں

دل کی بات لبوں پر لا کر، اب تک ہم دُکھ سہتے ہیں
ہم نے سُنا تھا اس بستی میں، دل والے بھی رہتے ہیں
بِیت گیا ساون کا مہینہ، موسم نے نظریں بدلیں
لیکن ان پیاسی آنکھوں سے اب تک آنسو بہتے ہیں
ایک ہمیں آوارہ کہنا، کوئی بڑا الزام نہیں
دُنیا والے دل والوں کو اور بہت کچھ کہتے ہیں
جن کی خاطر شہر بھی چھوڑا، جن کے لیے بدنام ہوئے
آج وہی ہم سے بیگانے بیگانے سے رہتے ہیں
وہ جو ابھی اس راہگزر سے چاک گریباں گزرا تھا
اس آوارہ دیوانے کو جالبؔ جالبؔ کہتے ہیں

حبیب جالبؔ


مشہور اشاعتیں

مشہور اشاعتیں