تیرے غم کو جاں کی تلاش تھی تیرے جاں نثار چلے گئے
تیری رہ میں کرتے تھے سر طلب، سرِ رہگزار چلے گئے
تیری کج ادائی سے ہار کے شبِ اِنتظار چلی گئی
میرے ضبطِ حال سے رُوٹھ کر میرے غمگسار چلے گئے
نہ سوالِ وصل، نہ عرضِ غم، نہ حکائتیں نہ شکائتیں
تیرے عہد میں دلِ زار کے سبھی اِختیار چلے گئے
نہ رہا جنونِ وفا، یہ رَسَن یہ دار کرو گے کیا
جنہیں جرمِ عشق پہ ناز تھا وہ گناہگار چلے گئے
یہ ہمیں تھے جن کے لباس پر سرِ رہ سیاہی لکھی گئی
یہی داغ تھے جو سجا کے ہم سرِ بزمِ یار چلے گئے
فيض احمد فيضؔ
کوئی تبصرے نہیں:
Write تبصرے