اداس شاعری لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
اداس شاعری لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

بدھ، 7 اگست، 2024

اپنی مستی، کہ ترے قرب کی سرشاری میں - شاعر ثنااللہ ظہیر

 اپنی مستی، کہ ترے قرب کی سرشاری میں

اپنی مستی، کہ ترے قرب کی سرشاری میں

اب میں کچھ اور بھی آسان ہوں دشواری میں

کتنی زرخیز ہے نفرت کے لیے دل کی زمیں

وقت لگتا ہی نہیں فصل کی تیاری میں

اک تعلق کو بکھرنے سے بچانے کے لیے

میرے دن رات گزرتے ہیں اداکاری میں

وہ کسی اور دوا سے مرا کرتا ہے علاج

مبتلا ہوں میں کسی اور ہی بیماری میں

اے زمانے میں ترے اشک بھی رو لوں گا ، مگر

ابھی مصروف ہوں خود اپنی عزاداری میں

اس کے کمرے سے اٹھا لایا ہوں یادیں اپنی

خود پڑا رہ گیا لیکن کسی الماری میں

اپنی تعمیر اٹھاتے تو کوئی بات بھی تھی

تم نے اک عمر گنوادی مری مسماری میں

ہم اگر اور نہ کچھ دیر ہوا دیں ، تو یہ آگ

سانس گھٹنے سے ہی مر جائے گی چنگاری میں

تم بھی دنیا کے نکالے ہوئے لگتے ہو ظہیر

میں بھی رہتا ہوں یہیں ، دل کی عملداری میں


شاعر ثنااللہ ظہیر




اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے - ابراہیم ذوق

 اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے - ابراہیم ذوق


اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے

مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے


سامنے چشم گہر بار کے کہہ دو دریا

چڑھ کے گر آئے تو نظروں سے اتر جائیں گے


لائے جو مست ہیں تربت پہ گلابی آنکھیں

اور اگر کچھ نہیں دو پھول تو دھر جائیں گے


بچیں گے رہ گزر یار تلک کیونکر ہم

پہلے جب تک نہ دو عالم سے گزر جائیں گے


آگ دوزخ کی بھی ہو جائے گی پانی پانی

جب یہ عاصی عرق شرم سے تر جائیں گے


ہم نہیں وہ جو کریں خون کا دعویٰ تجھ سے

بلکہ پوچھے گا خدا بھی تو مکر جائیں گے


رخِ روشن سے نقاب اپنے الٹ دیکھو تم

مہر و مہ نظروں سے یاروں کی اتر جائیں گے


شعلہ آہ کو بجلی کی طرح چمکاؤں

پر یہی ڈر ہے کہ وہ دیکھ کے ڈر جائیں گے


ذوق جو مدرسہ کے بگڑے ہوئے ہیں مُلا

ان کو مہ خانہ میں لے آؤ سنور جائیں گے




منگل، 6 اگست، 2024

اردو شاعری - اپنی مستی، کہ ترے قرب کی سرشاری میں

 اپنی مستی، کہ ترے قرب کی سرشاری میں

اپنی مستی، کہ ترے قرب کی سرشاری میں

اب میں کچھ اور بھی آسان ہوں دشواری میں

کتنی زرخیز ہے نفرت کے لیے دل کی زمیں

وقت لگتا ہی نہیں فصل کی تیاری میں

اک تعلق کو بکھرنے سے بچانے کے لیے

میرے دن رات گزرتے ہیں اداکاری میں

وہ کسی اور دوا سے مرا کرتا ہے علاج

مبتلا ہوں میں کسی اور ہی بیماری میں

اے زمانے میں ترے اشک بھی رو لوں گا ، مگر

ابھی مصروف ہوں خود اپنی عزاداری میں

اس کے کمرے سے اٹھا لایا ہوں یادیں اپنی

خود پڑا رہ گیا لیکن کسی الماری میں

اپنی تعمیر اٹھاتے تو کوئی بات بھی تھی

تم نے اک عمر گنوادی مری مسماری میں

ہم اگر اور نہ کچھ دیر ہوا دیں ، تو یہ آگ

سانس گھٹنے سے ہی مر جائے گی چنگاری میں

تم بھی دنیا کے نکالے ہوئے لگتے ہو ظہیر

میں بھی رہتا ہوں یہیں ، دل کی عملداری میں





بدھ، 17 جنوری، 2024

تشنگی آنکھوں میں اور دریا خیالوں میں رہے : احمد فراز


تشنگی آنکھوں میں اور دریا خیالوں میں رہے

ہم نوا گر، خوش رہے جیسے بھی حالوں میں رہے

دیکھنا اے رہ نوردِ شوق! کوئے یار تک

کچھ نہ کچھ رنگِ حنا پاؤں کے چھالوں میں رہے

ہم سے کیوں مانگے حسابِ جاں کوئی جب عمر بھر

کون ہیں، کیا ہیں، کہاں ہیں؟ ان سوالوں میں رہے

بدظنی ایسی کہ غیروں کی وفا بھی کھوٹ تھی

سوئے ظن ایسا کہ ہم اپنوں کی چالوں میں رہے

ایک دنیا کو میری دیوانگی خوش آ گئی

یار مکتب کی کتابوں کے حوالوں میں رہے

عشق میں دنیا گنوائی ہے نہ جاں دی ہے فراز

پھر بھی ہم اہلِ محبت کی مثالوں میں رہے

احمد فراز

جمعہ، 24 نومبر، 2023

اداسی اک اسیری ہے اداسی سے گھرا ہوں میں : شاعر عدنان حامد

اداسی اک اسیری ہے اداسی سے گھرا ہوں میں 

اداسی ہی اداسی ہے اداسی سے گھرا ہوں میں 


اداسی اور اداسی اور اداسی اور اداسی بس 

اداسی مجھ پہ حاوی ہے اداسی سے گھرا ہوں میں 


یقیں تیرا تھا بس مجھ کو خدارا کیوں کروں میں اب 

تری ہستی خیالی ہے اداسی سے گھرا ہوں میں 


بھٹکتا در بہ در رہتا ہوں میں وحشت کے سائے میں 

مری مردہ جوانی ہے اداسی سے گھرا ہوں میں 


پرستش کر رہا ہوں آج کل میں بس اداسی کی 

اداسی جاودانی ہے اداسی سے گھرا ہوں میں 


ہلاک عشق ہوں یاروں مجھے مارا محبت نے 

مری غمگیں کہانی ہے اداسی سے گھرا ہوں میں 


تعلق ہے سیاست کا یہاں ہر بات سے حامدؔ 

اداسی بھی سیاسی ہے اداسی سے گھرا ہوں میں 




اردو عزل ۔ طویل تر ہے سفر مختصر نہیں ہوتا

 طویل تر ہے سفر مختصر نہیں ہوتا 

محبتوں کا شجر بے ثمر نہیں ہوتا 


پھر اس کے بعد کئی لوگ مل کے بچھڑے ہیں 

کسی جدائی کا دل پر اثر نہیں ہوتا 


ہر ایک شخص کی اپنی ہی ایک منزل ہے 

کوئی کسی کا یہاں ہم سفر نہیں ہوتا 


تمام عمر گزر جاتی ہے کبھی پل میں 

کبھی تو ایک ہی لمحہ بسر نہیں ہوتا 


یہ اور بات ہے وہ اپنا حال دل نہ کہے 

کوئی بھی شخص یہاں بے خبر نہیں ہوتا 



عجیب لوگ ہیں یہ اہل عشق بھی اخترؔ 

کہ دل تو ہوتا ہے پر ان کا سر نہیں ہوتا 

جمعہ، 3 فروری، 2023

جتنی اچھی باتیں ہیں

 جتنی اچھی باتیں ہیں 

ساری تیری باتیں ہیں 


جن میں تیرا ذکر نہیں 

وہ بھی کوئی باتیں ہیں 


جو چٹکی میں کہتے ہو 

سوچی سمجھی باتیں ہیں 


تیرا میرا کوئی نہیں 

تیری میری باتیں ہیں 


دیواروں کے ہونٹوں پر 

ٹوٹی پھوٹی باتیں ہیں 


جتنا پیارا چہرہ ہے 

اتنی پیاری باتیں ہیں 


نیا نیا تو دکھتا ہوں 

وہی پرانی باتیں ہیں 


اک انجانے نمبر پر 

خاموشی ہی باتیں ہیں 


شعروں سے تم دور رہو 

چکنی چپڑی باتیں ہیں 


جنہیں مکمل جانا تھا 

وہی ادھوری باتیں ہیں 


ان کے رنگ بھی ہوتے ہیں 

یہ جو نیلی باتیں ہیں 


الیاس بابر اعوان




منگل، 1 نومبر، 2022

وہ ہم سے آج بھی دامن کشاں چلے ہے میاں

 وہ ہم سے آج بھی دامن کشاں چلے ہے میاں 

کسی پہ زور ہمارا کہاں چلے ہے میاں 


جہاں بھی تھک کے کوئی کارواں ٹھہرتا ہے 

وہیں سے ایک نیا کارواں چلے ہے میاں 


جو ایک سمت گماں ہے تو ایک سمت یقیں 

یہ زندگی تو یوں ہی درمیاں چلے ہے میاں 


بدلتے رہتے ہیں بس نام اور تو کیا ہے 

ہزاروں سال سے اک داستاں چلے ہے میاں 


ہر اک قدم ہے نئی آزمائشوں کا ہجوم 

تمام عمر کوئی امتحاں چلے ہے میاں 


وہیں پہ گھومتے رہنا تو کوئی بات نہیں 

زمیں چلے ہے تو آگے کہاں چلے ہے میاں 


وہ ایک لمحۂ حیرت کہ لفظ ساتھ نہ دیں 

نہیں چلے ہے نہ ایسے میں ہاں چلے ہے میاں 


جاں نثاراختر



اردو شاعری - آہٹ سی کوئی آئے تو لگتا ہے کہ تم ہو

 آہٹ سی کوئی آئے تو لگتا ہے کہ تم ہو 

سایہ کوئی لہرائے تو لگتا ہے کہ تم ہو 


جب شاخ کوئی ہاتھ لگاتے ہی چمن میں 

شرمائے لچک جائے تو لگتا ہے کہ تم ہو 


صندل سے مہکتی ہوئی پر کیف ہوا کا 

جھونکا کوئی ٹکرائے تو لگتا ہے کہ تم ہو 


اوڑھے ہوئے تاروں کی چمکتی ہوئی چادر 

ندی کوئی بل کھائے تو لگتا ہے کہ تم ہو 


جب رات گئے کوئی کرن میرے برابر 

چپ چاپ سی سو جائے تو لگتا ہے کہ تم ہو 



جمعرات، 23 دسمبر، 2021

میں جو کانٹا ہوں تو چل مجھ سے بچا کر دامن...

 میں جو کانٹا ہوں تو چل مجھ سے بچا کر دامن...

میں ہوں گر پھول تو جُوڑے میں سجا لے مجھ کو...

- قتیل شفائی




بدھ، 26 اکتوبر، 2016

جگر چھلنی سہی غم میں ہنسی ہونٹوں پہ اب بھی ہے

دل ناشادکے بجھتے ہوۓ ارمان کی مانند
سبھی سپنے ہوۓ جاتے ہیں قبرستان کی مانند

دیار دل کے موسم میں خزاں ہے اب مکیں ایسے
میں اپنے گھر میں بھی لگتا ہوں اک مہمان کی مانند

یہ جو ہجر مسلسل ہے مجھے جینے نہیں دیتا 
کسی بیمار کے بگڑے ہوۓ سرطان کی مانند

ہوئی مدت رہ دنیا پہ لاوارث پڑا ہوں میں 
مسافر کے کسی بھولے ہوۓ سامان کی مانند

مرا ہمدم بھی پاگل ہے ہمیشہ درد دیتا ہے
سمجھتا ہی نہیں میری دل نادان کی مانند

کبھی ملتے تھے ہم گنگا میں جمنا کی طرح لیکن
بچھڑ کر ہو گۓ ھیں ہجر کے عنوان کی مانند

جگر چھلنی سہی غم میں ہنسی ہونٹوں پہ اب بھی ہے
کڑی مشکل سے بچنے کے کسی امکان کی مانند

بڑا دم ہے تجھے کھو کر بھی زندہ ہوں اسد لیکن 
کسی حالات سے ہارے ہوۓ انسان کی مانند


جمعہ، 5 اگست، 2016

یہاں جو ہے کہاں اُس کا نشاں باقی رہے گا

غزل
یہاں جو ہے کہاں اُس کا نشاں باقی رہے گا
مگر جو کچھ نہیں، وہ سب یہاں باقی رہے گا
سفر ہو گا سفر کی منزلیں معدوم ہوں گی
مکاں باقی نہ ہو گا لا مکاں باقی رہے گا
کبھی قریہ بہ قریہ اور کبھی عالم بہ عالم
غبارِ ہجرتِ بے خانماں باقی رہے گا
ہمارے ساتھ جب تک درد کی دھڑکن رہے گی
ترے پہلو میں ہونے کا گماں باقی رہے گا
بہت بے اعتباری سے گزر کر دل ملے ہیں
بہت دن تک تکلف درمیاں باقی رہے گا
رہے گا آسماں جب تک زمیں باقی رہے گی
زمیں قائم ہے جب تک آسماں باقی رہے گا
یہ دنیا حشر تک آباد رکھی جا سکے گی
یہاں ہم سا جو کوئی خوش بیاں باقی رہے گا
جنوں کو ایسی عمرِ جاوداں بخشی گئی ہے
قیامت تک گروہِ عاشقاں باقی رہے گا
تمدن کو بچا لینے کی مہلت اب کہاں ہے
سر گرداب کب تک بادباں باقی رہے گا
کنارہ تا کنارہ ہو کوئی یخ بستہ چادر
مگر تہہ میں کہیں آبِ رواں باقی رہے گا
ہمارا حوصلہ قائم ہے جب تک سائباں ہے
خدا جانے کہاں تک سائباں باقی رہے گا
تجھے معلوم ہے یا کچھ ہمیں اپنی خبر ہے
سو ہم مر جائیں گے تُو ہی یہاں باقی رہے گا


بدھ، 3 اگست، 2016

گلے لگ کر کوئی روئے، ندامت ہوتو ایسی ہو: مزید پڑھیں

اثر دل پر کرے شکوہ شکایت ہوتو ایسی ہو
گلے لگ کر کوئی روئے، ندامت ہوتو ایسی ہو

یہی محسوس ہوجیسے کہ صدیاں گزاری ہیں
فقط اک پل کی فرقت میں اذیت ہوتو ایسی ہو

مجھے کانٹا چبھے اور اس کی آنکھوں سے لہو نکلے
تعلق ہوتو ایسا ہو محبت ہوتو ایسی ہو


بدھ، 27 جولائی، 2016

کُھلا ہے جُھوٹ کا بازار، آؤ سچ بولیں

کُھلا ہے جُھوٹ کا بازار، آؤ سچ بولیں
نہ ہو بلا سے خریدار، آؤ سچ بولیں

سکُوت چھایا ہے انسانیت کی قدروں پر
یہی ہے موقعِ اِظہار، آؤ سچ بولیں

ہمیں گواہ بنایا ہے وقت نے
بنامِ عظمتِ کِردار، آؤ سچ بولیں

سُنا ہے وقت کا حاکم بڑا ہی مُنصِف ہے
پُکار کر سرِ دربار، آؤ سچ بولیں

تمام شہر میں ایک بھی منصُور نہیں
کہیں گے کیا رَسَن و دار، آؤ سچ بولیں

جو وصف ہم میں نہیں کیوں کریں کسی میں تلاش
اگر ضمیر ہے بیدار، آؤ سچ بولیں

چُھپائے سے کہیں چُھپتے ہیں داغ چہروں کے
نظر ہے آئینۂ بردار، آؤ سچ بولیں

قتیلؔ جِن پہ سدا پتھروں کو پیار آیا
کِدھر گئے وہ گنہگار، آؤ سچ بولیں



پیر، 11 جولائی، 2016

مری زندگی پہ نہ مسکرا، میں اداس ہوں!

مری زندگی پہ نہ مسکرا، میں اداس ہوں!
مرے گمشدہ مرے پاس آ، میں اداس ہوں!
کسی وصل میں بھی بقائے سوزشِ ہجر ہے
غمِ عاشقی ذرا دور جا، میں اداس ہوں!
میں منڈیرِ درد پہ جل رہا ہوں چراغ سا
مری لو بڑھا مجھے مت بجھا، میں اداس ہوں!
مرے حافظے کا یہ حال وجہ ملال ہے
مرے چارہ گر مجھے یاد آ، میں اداس ہوں!
سبھی لوگ شہر میں آئینے کے کفیل ہیں
مجھے آ کے چہرہ مرا دِکھا ،میں اداس ہوں!
ترا مسکرانا زوال ہے مرے درد کا
یونہی بات بات پہ مسکرا ،میں اداس ہوں!
مرے لب تھے زین کسی دعا سے سجے ہوئے
مجھے لگ گئی کوئی بد دعا، میں اداس ہوں!
زین شکیل


سانس لینا بھی کیسی عادت ہے - جئیے جانا بھی

سانس لینا بھی کیسی عادت ہے -  جئیے جانا بھی کیا روایت ہے
کوئی آہٹ نہیں بدن میں کہیں  -  کوئی سایہ نہیں ہے آنکھوں میں
پاؤں بےحِس ہیں، چلتے جاتے ہیں  -   اِک سفر ہے جو بہتا رہتا ہے
کتنے برسوں سے، کتنی صدیوں سے  - جئیے جاتے ہیں، جیے جاتے ہیں
                       عادتیں بھی عجیب ہوتی ہیں


ہفتہ، 2 جولائی، 2016

ابھی سورج نہیں ڈوبا، ذرا شام ہونے دو

ابھی سورج نہیں ڈوبا، ذرا شام ہونے دو 
میں خود لوٹ جائوں گا، مجھے ناکام ہونے دو

مجھے بدنام کرنے کے بہانے ڈھونڈتے ہو کیوں 
میں خود ہوجائوں گا بدنام، پہلے نام ہونے دو

ابھی مجھ کو نہیں کرنا ہے اعتراف شکست تم سے 
میں سب تسلیم کرلوں گا، یہ چرچا عام ہونے دو

میری ہستی نہیں انمول پھربھی بک نہیں سکتا 
وفائیں بیچ لینا، بس ذرا نیلام ہونے دو

میرے آغاز میں ہی کیوں حوصلہ چھوڑ بیٹھے ہو 
میں سب کچھ جیت جاءو گے، ذرا انجام ہونے دو


جمعرات، 23 جون، 2016

آنسوؤں کے ڈر سے ہنسنا نہ چھوڑ دینا

نفرتوں کے ڈر سے محبت نہ چھوڑ دینا
آنسوؤں کے ڈر سے ہنسنا نہ چھوڑ دینا

چاھتوں کے راستوں میں ھوتی ہےہار بھی
کانٹوں کے ڈر سے تم چلنا نہ چھوڑ دینا

جینا مشکل تو ھے ان ظالموں کے شہر میں
مرنے کے ڈر سے تم جینا نہ چھوڑ دینا

ملنے سے پہلے بچھٹرنے کا خوف بھی ہوگا
بچھٹرنے کے ڈر سے تم ملنا نہ چھوڑ دینا

شاعر نامعلوم


بدھ، 22 جون، 2016

دعائے رمضان : ہے مغفرت کا یہ عشرہ تُو مغفرت فرما

ہے مغفرت کا یہ عشرہ تُو مغفرت فرما 
میری تجھے ماہِ رمضاں کا واسطہ یا ربّ

میں کر کے توبہ پلٹ کر گناہ کرتا ہوں 
حقیقی توبہ کا کر دے شرف عطا یا ربّ

رہائی مجھ کو ملے کاش نفس و شیطاں سے 
تیرے حبیب ﷺ کا دیتا ہوں واسطہ یا ربّ
آمین 


یہ دولت بھی لے لو، یہ شہرت بھی لے لو.. مگر مجھ کو لوٹا دو بچپن کا ساون

یہ دولت بھی لے لو، یہ شہرت بھی لے لو
بھلے چھین لو مجھ سے میری جوانی
مگر مجھ کو لوٹا دو بچپن کا ساون
وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی

محلے کی سب سے پرانی نشانی
وہ بڑھیا جسے بچے کہتے تھے نانی
وہ نانی کی باتوں میں پریوں کا ڈھیرا
وہ چہرے کی جہریوں میں میں صدیوں کا پھیرا
بھلائے نہیں بھول سکتا ہے کوئی
وہ چھوٹی سی راتیں وہ لمبی کہانی

کھڑی دھوپ میں اپنے گھر سے نکلنا
وہ چڑیاں وہ بلبل وہ تتلی پکڑنا
وہ گھڑیا کی شادی میں لڑنا جھگڑنا
وہ جھولوں سے گرنا وہ گر کہ سنبھلنا
وہ پیتل کے چھلوں کے پیارے سے تحفے
وہ ٹوٹی ہوئی چوڑیوں کی نشانی

کبھی ریت کے اونچے ٹیلوں پہ جانا
گھروندے بنانا بنا کہ مٹانا
وہ معصوم چاہت کی تصویر اپنی
وہ خوابوں خیالوں کی جاگیر اپنی
نہ دنیا کا غم تھا نہ رشتوں کا بندھن
بڑی خوبصورت تھی وہ زندگانی




مشہور اشاعتیں

مشہور اشاعتیں