مکمل شاعری لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
مکمل شاعری لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

بدھ، 7 اگست، 2024

جھنجھلائے ہیں، لجائے ہیں پھر مسکرائے ہیں - شاعر خمار بارہ بنکوی

جھنجھلائے ہیں، لجائے ہیں پھر مسکرائے ہیں

جھنجھلائے ہیں، لجائے ہیں پھر مسکرائے ہیں
کس اہتمام سے انہیں ہم یاد آئے ہیں

دیر و حرم کے حبس کدوں کے ستائے ہیں
ہم آج مے کدے کی ہوا کھانے آئے ہیں

اب جا کے آہ کرنے کے آداب آئے ہیں
دنیا سمجھ رہی ہے کہ ہم مسکرائے ہیں

گُزرے ہیں مے کدے سے جو توبہ کے بعد ہم
کچھ دُور عادتاً بھی قدم لڑکھڑائے ہیں

اے جوشِ گریہ دیکھ! نہ کرنا خجل مجھے
آنکھیں مری ضرور ہیں، آنسو پرائے ہیں

اے موت! اے بہشت سکوں! آ خوش آمدید
ہم زندگی میں پہلے پہل مسکرائے ہیں

جتنی بھی مے کدے میں ہے ساقی پلا دے آج
ہم تشنہ کام زُہد کے صحرا سے آئے ہیں

انسان جیتے جی کریں توبہ خطاؤں سے
مجبوریوں نے کتنے فرشتے بنائے ہیں

سمجھاتے قبلِ عشق تو ممکن تھا بنتی بات
ناصح غریب اب ہمیں سمجھانے آئے ہیں

کعبے میں خیریت تو ہے سب حضرتِ خمار
یہ دیر ہے جناب یہاں کیسے آئے ہیں

شاعر خمار بارہ بنکوی



بیتے دنوں کی یاد بھلائے نہیں بنے - شاعر خمار بارہ بنکوی

بیتے دنوں کی یاد بھلائے نہیں بنے

بیتے دنوں کی یاد بھلائے نہیں بنے
یہ آخری چراغ بجھائے نہ بنے

دنیا نے جب مرا نہیں بننے دیا انہیں
پتھر تو بن گئے وہ پرائے نہیں بنے

توبہ کیے زمانہ ہوا، لیکن آج تک
جب شام ہو تو کچھ بھی بنائے نہیں بنے

پردے ہزار خندہ پیہم کے ڈالیے
غم وہ گناہ ہے کہ چھپائے نہیں بنے

یہ نصف شب یہ میکدے کا در یہ محتسب
ٹوکے کوئی تو بات بنائے نہیں بنے

جاتے تو ہیں صنم کدے سے حضرتِ خمار
لیکن خدا کرے کہ بن آئے نہ بنے

شاعر خمار بارہ بنکوی




اپنی مستی، کہ ترے قرب کی سرشاری میں - شاعر ثنااللہ ظہیر

 اپنی مستی، کہ ترے قرب کی سرشاری میں

اپنی مستی، کہ ترے قرب کی سرشاری میں

اب میں کچھ اور بھی آسان ہوں دشواری میں

کتنی زرخیز ہے نفرت کے لیے دل کی زمیں

وقت لگتا ہی نہیں فصل کی تیاری میں

اک تعلق کو بکھرنے سے بچانے کے لیے

میرے دن رات گزرتے ہیں اداکاری میں

وہ کسی اور دوا سے مرا کرتا ہے علاج

مبتلا ہوں میں کسی اور ہی بیماری میں

اے زمانے میں ترے اشک بھی رو لوں گا ، مگر

ابھی مصروف ہوں خود اپنی عزاداری میں

اس کے کمرے سے اٹھا لایا ہوں یادیں اپنی

خود پڑا رہ گیا لیکن کسی الماری میں

اپنی تعمیر اٹھاتے تو کوئی بات بھی تھی

تم نے اک عمر گنوادی مری مسماری میں

ہم اگر اور نہ کچھ دیر ہوا دیں ، تو یہ آگ

سانس گھٹنے سے ہی مر جائے گی چنگاری میں

تم بھی دنیا کے نکالے ہوئے لگتے ہو ظہیر

میں بھی رہتا ہوں یہیں ، دل کی عملداری میں


شاعر ثنااللہ ظہیر




اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے - ابراہیم ذوق

 اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے - ابراہیم ذوق


اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے

مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے


سامنے چشم گہر بار کے کہہ دو دریا

چڑھ کے گر آئے تو نظروں سے اتر جائیں گے


لائے جو مست ہیں تربت پہ گلابی آنکھیں

اور اگر کچھ نہیں دو پھول تو دھر جائیں گے


بچیں گے رہ گزر یار تلک کیونکر ہم

پہلے جب تک نہ دو عالم سے گزر جائیں گے


آگ دوزخ کی بھی ہو جائے گی پانی پانی

جب یہ عاصی عرق شرم سے تر جائیں گے


ہم نہیں وہ جو کریں خون کا دعویٰ تجھ سے

بلکہ پوچھے گا خدا بھی تو مکر جائیں گے


رخِ روشن سے نقاب اپنے الٹ دیکھو تم

مہر و مہ نظروں سے یاروں کی اتر جائیں گے


شعلہ آہ کو بجلی کی طرح چمکاؤں

پر یہی ڈر ہے کہ وہ دیکھ کے ڈر جائیں گے


ذوق جو مدرسہ کے بگڑے ہوئے ہیں مُلا

ان کو مہ خانہ میں لے آؤ سنور جائیں گے




منگل، 6 اگست، 2024

اردو شاعری - اپنی مستی، کہ ترے قرب کی سرشاری میں

 اپنی مستی، کہ ترے قرب کی سرشاری میں

اپنی مستی، کہ ترے قرب کی سرشاری میں

اب میں کچھ اور بھی آسان ہوں دشواری میں

کتنی زرخیز ہے نفرت کے لیے دل کی زمیں

وقت لگتا ہی نہیں فصل کی تیاری میں

اک تعلق کو بکھرنے سے بچانے کے لیے

میرے دن رات گزرتے ہیں اداکاری میں

وہ کسی اور دوا سے مرا کرتا ہے علاج

مبتلا ہوں میں کسی اور ہی بیماری میں

اے زمانے میں ترے اشک بھی رو لوں گا ، مگر

ابھی مصروف ہوں خود اپنی عزاداری میں

اس کے کمرے سے اٹھا لایا ہوں یادیں اپنی

خود پڑا رہ گیا لیکن کسی الماری میں

اپنی تعمیر اٹھاتے تو کوئی بات بھی تھی

تم نے اک عمر گنوادی مری مسماری میں

ہم اگر اور نہ کچھ دیر ہوا دیں ، تو یہ آگ

سانس گھٹنے سے ہی مر جائے گی چنگاری میں

تم بھی دنیا کے نکالے ہوئے لگتے ہو ظہیر

میں بھی رہتا ہوں یہیں ، دل کی عملداری میں





جمعہ، 24 نومبر، 2023

اداسی اک اسیری ہے اداسی سے گھرا ہوں میں : شاعر عدنان حامد

اداسی اک اسیری ہے اداسی سے گھرا ہوں میں 

اداسی ہی اداسی ہے اداسی سے گھرا ہوں میں 


اداسی اور اداسی اور اداسی اور اداسی بس 

اداسی مجھ پہ حاوی ہے اداسی سے گھرا ہوں میں 


یقیں تیرا تھا بس مجھ کو خدارا کیوں کروں میں اب 

تری ہستی خیالی ہے اداسی سے گھرا ہوں میں 


بھٹکتا در بہ در رہتا ہوں میں وحشت کے سائے میں 

مری مردہ جوانی ہے اداسی سے گھرا ہوں میں 


پرستش کر رہا ہوں آج کل میں بس اداسی کی 

اداسی جاودانی ہے اداسی سے گھرا ہوں میں 


ہلاک عشق ہوں یاروں مجھے مارا محبت نے 

مری غمگیں کہانی ہے اداسی سے گھرا ہوں میں 


تعلق ہے سیاست کا یہاں ہر بات سے حامدؔ 

اداسی بھی سیاسی ہے اداسی سے گھرا ہوں میں 




جمعہ، 3 فروری، 2023

اگر یہ کہہ دو بغیر میرے نہیں گزارہ تو میں تمہارا

 اگر یہ کہہ دو بغیر میرے نہیں گزارہ تو میں تمہارا 

یا اس پہ مبنی کوئی تأثر کوئی اشارا تو میں تمہارا 


غرور پرور انا کا مالک کچھ اس طرح کے ہیں نام میرے 

مگر قسم سے جو تم نے اک نام بھی پکارا تو میں تمہارا 


تم اپنی شرطوں پہ کھیل کھیلو میں جیسے چاہے لگاؤں بازی 

اگر میں جیتا تو تم ہو میرے اگر میں ہارا تو میں تمہارا 


تمہارا عاشق تمہارا مخلص تمہارا ساتھی تمہارا اپنا 

رہا نہ ان میں سے کوئی دنیا میں جب تمہارا تو میں تمہارا 


تمہارا ہونے کے فیصلے کو میں اپنی قسمت پہ چھوڑتا ہوں 

اگر مقدر کا کوئی ٹوٹا کبھی ستارا تو میں تمہارا 


یہ کس پہ تعویذ کر رہے ہو یہ کس کو پانے کے ہیں وظیفے 

تمام چھوڑو بس ایک کر لو جو استخارہ تو میں تمہارا 


عامر میر



جتنی اچھی باتیں ہیں

 جتنی اچھی باتیں ہیں 

ساری تیری باتیں ہیں 


جن میں تیرا ذکر نہیں 

وہ بھی کوئی باتیں ہیں 


جو چٹکی میں کہتے ہو 

سوچی سمجھی باتیں ہیں 


تیرا میرا کوئی نہیں 

تیری میری باتیں ہیں 


دیواروں کے ہونٹوں پر 

ٹوٹی پھوٹی باتیں ہیں 


جتنا پیارا چہرہ ہے 

اتنی پیاری باتیں ہیں 


نیا نیا تو دکھتا ہوں 

وہی پرانی باتیں ہیں 


اک انجانے نمبر پر 

خاموشی ہی باتیں ہیں 


شعروں سے تم دور رہو 

چکنی چپڑی باتیں ہیں 


جنہیں مکمل جانا تھا 

وہی ادھوری باتیں ہیں 


ان کے رنگ بھی ہوتے ہیں 

یہ جو نیلی باتیں ہیں 


الیاس بابر اعوان




منگل، 22 فروری، 2022

ہم کون ہیں کیا ہیں بخدا یاد نہیں

 ہم کون ہیں کیا ہیں بخدا یاد نہیں

اپنے اَسلاف کی کوئی بھی ادا یاد نہیں


ہاں اگر ہے یاد تو کافر کے ترانے ہیں بس

ہے نہیں یاد تو مسجد کی صدا یاد نہیں


بنت ِحوا کو نچاتے ہیں سر ِمحفل میں ہم

کتنے سنگ دِل ہیں کہ رَسم حَیا یاد نہیں


آج اپنی ذِلت کا سبب یہی ہے شاید

سب کچھ ہے یاد مگر، صرف الله یاد نہیں

'

'

'

✓شیئر کریں✓ ٹیگ کریں✓کومنٹ کریں





بدھ، 26 اکتوبر، 2016

جگر چھلنی سہی غم میں ہنسی ہونٹوں پہ اب بھی ہے

دل ناشادکے بجھتے ہوۓ ارمان کی مانند
سبھی سپنے ہوۓ جاتے ہیں قبرستان کی مانند

دیار دل کے موسم میں خزاں ہے اب مکیں ایسے
میں اپنے گھر میں بھی لگتا ہوں اک مہمان کی مانند

یہ جو ہجر مسلسل ہے مجھے جینے نہیں دیتا 
کسی بیمار کے بگڑے ہوۓ سرطان کی مانند

ہوئی مدت رہ دنیا پہ لاوارث پڑا ہوں میں 
مسافر کے کسی بھولے ہوۓ سامان کی مانند

مرا ہمدم بھی پاگل ہے ہمیشہ درد دیتا ہے
سمجھتا ہی نہیں میری دل نادان کی مانند

کبھی ملتے تھے ہم گنگا میں جمنا کی طرح لیکن
بچھڑ کر ہو گۓ ھیں ہجر کے عنوان کی مانند

جگر چھلنی سہی غم میں ہنسی ہونٹوں پہ اب بھی ہے
کڑی مشکل سے بچنے کے کسی امکان کی مانند

بڑا دم ہے تجھے کھو کر بھی زندہ ہوں اسد لیکن 
کسی حالات سے ہارے ہوۓ انسان کی مانند


جمعہ، 5 اگست، 2016

دل کی دل نے نہ کہی، یوں تو کئی بار ملے

دل کی دل نے نہ کہی، یوں تو کئی بار ملے
ھم شناسا تھے مگر صورت ِ اغیار ملے

اس سے کہنا کہ نہ اب اور وہ اترا کے چلے
دوستو تم کو اگر یار طرحدار ملے

بے وفا ھم ھیں تو اے جان ِ وفا یونہی سہی
ڈهونڈھ لینا جو تمہیں کوئی وفادار ملے

ھم تو دل دے کے بهی دنیا میں اکیلے ھی رھے
جو ھوس کار تهے،سب ان کے طرفدار ملے

دل کی قیمت تو مُحبت کے سوا کچھ بھی نہ تھی
جو ملے صورت ِ زیبا کے خریدار ملے

ھم نے کانٹوں کو بھی سینے سے لگا رکها ھے
خار بهی ھم سے برنگ ِ گل وگلزار ملے

دُوریاں فاصلے ھو جاتے ھیں طے آخر کار
سر ِ گلزار چو بچھڑے تهے سر ِ دار...

بدھ، 3 اگست، 2016

مشیت کو ہوئی منظور جب تخلیق عورت کی: ضرور پڑھیں

مشیت کو ہوئی منظور جب تخلیق عورت کی
اشارہ پا کے یوں گویا ہوئی ہر چیز فطرت کی
زمین بولی ،الٰہی اس کو میری عاجزی دینا
فلک بولا اسے میرا مذاقِ سرکشی دینا

کہا سورج نے اس پر روشنی قربان کرتا ہوں
قمر کہنے لگا، میں چاندنی قربان کرتا ہوں
پکاری کہکشاں اس پر، میری بیداریاں صدقے
ثریا نے کہا، میرا بھی تاجِ زرفشاں صدقے

کہا شب نے کہ میں اس کو ستاروں سے جِلا دوں گی
شفق بولی کہ میں رنگیں قبا اس پر لٹا دوں گی
صبا کہنے لگی ، اس میں خرام ناز میرا ہو
کلی بولی چٹک کر، شعلہِ آواز میرا ہو

کہا قوس و قزاح نے چھین لو رنگینیاں میری
کہا خلدِ بریں نے، لُوٹ لو شیرینیاں میری
گھٹاؤں نے کہا، معصوم رقت چاہیے اس میں
ٹرپ کر بجلیاں بولیں، شرارت چاہیے اس میں

بہاروں نے ادب سے عرض کی ، رعنائیاں حاضر
وہیں صبحِ قیامت بول اٹھی ، انگڑائیاں حاضر
سحر بولی میری نور افشانی اسے دینا
کہا شبنم نے میری پاک دامانی اسے دینا

کہا چشموں نے ، بےتابی ہماری بخش دے اس کو
پہاڑوں نے کہا، کچھ استواری بخش دے اس کو
کہا صبح وطن نے ، روحِ عشرت پیش کرتی ہوں
پکاری شام ِ غربت، داغِ حسرت پیش کرتی ہوں

حیاداری صدف نے پیش کی ،گوہر نے تابانی
خلش کانٹوں نے، شوخی لالہ نے، نرگس نے حیرانی
مشیت کے لبوں پر اک تبسم ہو گیا پیدا
اسی ہلکے تبسم سے ، تکلم ہو گیا زیادہ

صدائے کن سے ظاہر ہو گیا، شاہکار فطرت کا
ہزاروں ڈھنگ سے ڈھالا گیا پیکر لطافت کا
خدا نے بزمِ فطرت میں یہ شکل نازنین رکھ دی
تو الفت نے وفورِ شوق مین اپنی جبین رکھ دی

جب اس تصویر کی رخ پر خوشی کی لہر سی دوڑی
عناصر کے جمودِ آہنی میں زندگی دوڑی

ہم آغوشی کو اُٹھیں ،نو بہاریں لالہ زاروں سے
صداۓ دل ربا آنے لگی فطرت کے تاروں سے



بدھ، 27 جولائی، 2016

تمام دوست اجنبی ہیں، دوستوں کے درمیاں

کدُورتوں کے درمیاں، عداوتوں کے درمیاں
تمام دوست اجنبی ہیں، دوستوں کے درمیاں

زمانہ میری داستاں پہ رو رہا ہے آج کیوں
یہی تو کل سُنی گئی تھی، قہقہوں کے درمیاں

ضمیرِ عصر میں کبھی، نوائے درد میں کبھی
سخن سرا تو میں بھی ہوں، عداوتوں کے درمیاں

شعورِ عصر ڈھونڈتا رہا ہے مُجھ کو، اور میں
مگن ہوں عہدِ رفتگاں كى عظمتوں کے درمياں

ابھی شکست کیا کہ رسمِ آخری اِک اور ہے
پکارتی ہے زندگی، ہزیمتوں کے درمیاں

ہزار بُردباریوں کے ساتھ، جِی رہے ہیں ہم
مُحال تھا یہ کارِ زیست، وحشتوں کے درمیاں

یہ سوچتے ہیں، کب تلک ضمیر کو بچائیں گے
اگر یوں ہی جِیا کریں، ضرورتوں کے درمیاں

پیرزادہ قاسم


دشتِ تنہائی میں، اے جانِ جہاں، لرزاں ہیں

دشتِ تنہائی میں، اے جانِ جہاں، لرزاں ہیں
تیری آواز کے سائے تیرے ہونٹوں کے سَراب
دشتِ تنہائی میں، دُوری کے خس و خاک تلے

کِھل رہے ہیں، تیرے پہلُو کے سمن اور گلاب
اُٹھ رہی ہے کہیں قُربت سے تیری سانس کی آنچ
اپنی خُوشبو میں سُلگتی ہوئی مدھم مدھم

دُور اُفق پار، چمکتی ہوئی قطرہ قطرہ
گِر رہی ہے تیری دلدار نظر کی شبنم

اس قدر پیار سے، اے جانِ جہاں، رکھا ہے
دل کے رُخسار پہ اس وقت تیری یاد نے ہات

یُوں گُماں ہوتا ہے، گرچہ ہے ابھی صبحِ فراق
ڈھل گیا ہِجر کا دن، آ بھی گئی وصل کی رات

فيض احمد فيضؔ


تیرے غم کو جاں کی تلاش تھی تیرے جاں نثار چلے گئے

تیرے غم کو جاں کی تلاش تھی تیرے جاں نثار چلے گئے 
تیری رہ میں کرتے تھے سر طلب، سرِ رہگزار چلے گئے 

تیری کج ادائی سے ہار کے شبِ اِنتظار چلی گئی 
میرے ضبطِ حال سے رُوٹھ کر میرے غمگسار چلے گئے 

نہ سوالِ وصل، نہ عرضِ غم، نہ حکائتیں نہ شکائتیں 
تیرے عہد میں دلِ زار کے سبھی اِختیار چلے گئے 

نہ رہا جنونِ وفا، یہ رَسَن یہ دار کرو گے کیا 
جنہیں جرمِ عشق پہ ناز تھا وہ گناہگار چلے گئے 

یہ ہمیں تھے جن کے لباس پر سرِ رہ سیاہی لکھی گئی 
یہی داغ تھے جو سجا کے ہم سرِ بزمِ یار چلے گئے

فيض احمد فيضؔ


خوبصورت شاعری، اک سرور شوق میں کچھ گنگنائیں چوڑیاں

ﻟﮍﮐﯿﻮﮞ ﻧﮯ ﺟﺐ ﮐﻼﺋﯽ ﻣﯿﮟ ﺳﺠﺎﺋﯿﮟ ﭼﻮﮌﯾﺎﮞ
ﺍﮎ ﺳُﺮﻭﺭِ ﺷﻮﻕ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﮔُﻨﮕُﻨﺎﺋﯿﻦ ﭼﻮﮌﯾﺎﮞ

ﻣﻮﺳﻢِ ﺑﺮﺳﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﮍﻭﮞ ﭘﮧ ﺟﮭﻮﻟﮯ ﺟﺐ ﭘﮍﮮ
ﺳﺎﺗﮫ ﻣﻞ ﮐﮯ ﻧﺎﺯﻧﯿﻨﻮﮞ ﮐﮯ ﻧﮩﺎﺋﯿﮟ ﭼﻮﮌﯾﺎﮞ

ﮨﺎﺗﮫ ﺍﭨﮭﺎ ﺁﺩﺍﺏ ﮐﻮ ﺟﺐ ﺭﻭﺑﺮﻭ ﻣﺤﺒﻮﺏ ﮐﮯ
ﭼﮭﻦ ﭼﮭﻨﺎﭼﮭﻦ، ﭼﮭﻦ ﭼﮭﻨﺎﭼﮭﻦ،ﭼﮭﻦ ﭼﮭﻨﺎﺋﯿﮟ ﭼﻮﮌﯾﺎﮞ

ﭼﻮﮌﯾﻮﮞ ﺳﮯ ﻟﮍﮐﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﻝ ﮐﺎ ﺭﺷﺘﮧ ﮬﮯ ﮐﻮﺋﯽ
ﮐﯽ ﺳﺠﻦ ﺳﮯ ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﻓﺮﻣﺎﺋﺶ ﻣﻨﮕﺎﺋﯿﮟ ﭼﻮﮌﯾﺎﮞ

ﺟﺐ ﮐﺒﮭﯽ ﺳّﭽﯽ ﺭﻓﺎﻗﺖ ﺗﻢ ﮐﻮ ﻣﻞ ﺟﺎﺋﮯ ﮐﮩﯿﮟ
ﺗﻮ ﺳﻤﺠﮫ ﻟﯿﻨﺎ ﮐﮧ ﺗﻢ ﮐﻮ ﺭﺍﺱ ﺁﺋﯿﮟ ﭼﻮﮌﯾﺎﮞ

ﮬﮯ ﺩﻋﺎﻣﯿﺮﯼ ﮐﻼﺋﯽ ﻣﯿﮟ ﺳﺠﻦ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﮐﯽ
ﻣﺮﺗﮯ ﻣﺮﺗﮯ ﺟﮕﻤﮕﺎﺋﯿﮟ ﺍﻟﻠﮧ ﺳﺎﺋﯿﮟ ﭼﻮﮌﯾﺎﮞ

‏( ﻣﻮﻧﺎ ﺷﮩﺎﺏ ‏)


ہم نے سُنا تھا صحنِ چمن میں کیف کے بادل چھائے ہیں

ہم نے سُنا تھا صحنِ چمن میں کیف کے بادل چھائے ہیں
ہم بھی گئے تھے جی بہلانے، اشک بہا کر آئے ہیں
پُھول کھِلے تو دل مُرجھائے، شمع جلے تو جان جلے
ایک تمہارا غم اپنا کر، کتنے غم اپنائے ہیں
ایک سُلگتی یاد، چمکتا درد، فروزاں تنہائی
پوچھو نہ اس کے شہر سے ہم کیا کیا سوغاتیں لائے ہیں
سوئے ہوئے جو درد تھے دل میں*، آنسو بن کر بہہ نکلے
رات ستاروں کی چھاؤں میں یاد وہ کیا کیا آئے ہیں
آج بھی سُورج ڈُوب گیا، بے نُور اُفق کے ساگر میں
آج بھی پُھول چمن میں تُجھ کو بِن دیکھے مُرجھائے ہیں
ایک قیامت کا سنّاٹا، ایک بلا کی تاریکی
ان گلیوں سے دُور، نہ ہنستا چاند، نہ روشن سائے ہیں
پیار کی بولی بول نہ جالبؔ! اس بستی کے لوگوں سے
ہم نے سُکھ کی کلیاں کھو کر، دُکھ کے کانٹے پائے ہیں

حبیب جالبؔ


دل کی بات لبوں پر لا کر، اب تک ہم دُکھ سہتے ہیں

دل کی بات لبوں پر لا کر، اب تک ہم دُکھ سہتے ہیں
ہم نے سُنا تھا اس بستی میں، دل والے بھی رہتے ہیں
بِیت گیا ساون کا مہینہ، موسم نے نظریں بدلیں
لیکن ان پیاسی آنکھوں سے اب تک آنسو بہتے ہیں
ایک ہمیں آوارہ کہنا، کوئی بڑا الزام نہیں
دُنیا والے دل والوں کو اور بہت کچھ کہتے ہیں
جن کی خاطر شہر بھی چھوڑا، جن کے لیے بدنام ہوئے
آج وہی ہم سے بیگانے بیگانے سے رہتے ہیں
وہ جو ابھی اس راہگزر سے چاک گریباں گزرا تھا
اس آوارہ دیوانے کو جالبؔ جالبؔ کہتے ہیں

حبیب جالبؔ


برف جیسے لمحوں کو دی ہے مات پِھر میں نے

برف جیسے لمحوں کو دی ہے مات پِھر میں نے
دِل میں درد سُلگایا، آج رات پِھر میں نے
صُبح کے درِیچے میں جھانک اے شبِ ہِجراں
کر دِیا تُجھے ثابت، بے ثبات پِھر میں نے
کیا کِسی نے دستک دی، پِھر کسی ستارے پر
رقص کرتے دیکھی ہے کائنات پِھر میں نے
اُٹھ کھڑا نہ ہو یارو! پھر نیا کوئی فِتنہ
چھیڑ دی ہے محفل میں اُس کی بات پِھر میں نے
شاید اِس طرح دُنیا میری رہ پہ چل نکلے
قریہ قریہ بانٹی ہے اپنی ذات پِھر میں نے
بھر گیا قتیلؔ اکثر جو ستارے آنکھوں میں
چاند رات کاٹی ہے اُس کے ساتھ پِھر میں نے

قتیلؔ شفائی


کُھلا ہے جُھوٹ کا بازار، آؤ سچ بولیں

کُھلا ہے جُھوٹ کا بازار، آؤ سچ بولیں
نہ ہو بلا سے خریدار، آؤ سچ بولیں

سکُوت چھایا ہے انسانیت کی قدروں پر
یہی ہے موقعِ اِظہار، آؤ سچ بولیں

ہمیں گواہ بنایا ہے وقت نے
بنامِ عظمتِ کِردار، آؤ سچ بولیں

سُنا ہے وقت کا حاکم بڑا ہی مُنصِف ہے
پُکار کر سرِ دربار، آؤ سچ بولیں

تمام شہر میں ایک بھی منصُور نہیں
کہیں گے کیا رَسَن و دار، آؤ سچ بولیں

جو وصف ہم میں نہیں کیوں کریں کسی میں تلاش
اگر ضمیر ہے بیدار، آؤ سچ بولیں

چُھپائے سے کہیں چُھپتے ہیں داغ چہروں کے
نظر ہے آئینۂ بردار، آؤ سچ بولیں

قتیلؔ جِن پہ سدا پتھروں کو پیار آیا
کِدھر گئے وہ گنہگار، آؤ سچ بولیں



مشہور اشاعتیں

مشہور اشاعتیں