کدُورتوں کے درمیاں، عداوتوں کے درمیاں
تمام دوست اجنبی ہیں، دوستوں کے درمیاں
زمانہ میری داستاں پہ رو رہا ہے آج کیوں
یہی تو کل سُنی گئی تھی، قہقہوں کے درمیاں
ضمیرِ عصر میں کبھی، نوائے درد میں کبھی
سخن سرا تو میں بھی ہوں، عداوتوں کے درمیاں
شعورِ عصر ڈھونڈتا رہا ہے مُجھ کو، اور میں
مگن ہوں عہدِ رفتگاں كى عظمتوں کے درمياں
ابھی شکست کیا کہ رسمِ آخری اِک اور ہے
پکارتی ہے زندگی، ہزیمتوں کے درمیاں
ہزار بُردباریوں کے ساتھ، جِی رہے ہیں ہم
مُحال تھا یہ کارِ زیست، وحشتوں کے درمیاں
یہ سوچتے ہیں، کب تلک ضمیر کو بچائیں گے
اگر یوں ہی جِیا کریں، ضرورتوں کے درمیاں
پیرزادہ قاسم
کوئی تبصرے نہیں:
Write تبصرے