
Advertisement
جمعرات، 3 اکتوبر، 2024


بے دِلی کیا یونہی دن گزر جائیں گے
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے : عالب
بدھ، 7 اگست، 2024

جھنجھلائے ہیں، لجائے ہیں پھر مسکرائے ہیں - شاعر خمار بارہ بنکوی
جھنجھلائے ہیں، لجائے ہیں پھر مسکرائے ہیں
کس اہتمام سے انہیں ہم یاد آئے ہیں
دیر و حرم کے حبس کدوں کے ستائے ہیں
ہم آج مے کدے کی ہوا کھانے آئے ہیں
اب جا کے آہ کرنے کے آداب آئے ہیں
دنیا سمجھ رہی ہے کہ ہم مسکرائے ہیں
گُزرے ہیں مے کدے سے جو توبہ کے بعد ہم
کچھ دُور عادتاً بھی قدم لڑکھڑائے ہیں
اے جوشِ گریہ دیکھ! نہ کرنا خجل مجھے
آنکھیں مری ضرور ہیں، آنسو پرائے ہیں
اے موت! اے بہشت سکوں! آ خوش آمدید
ہم زندگی میں پہلے پہل مسکرائے ہیں
جتنی بھی مے کدے میں ہے ساقی پلا دے آج
ہم تشنہ کام زُہد کے صحرا سے آئے ہیں
انسان جیتے جی کریں توبہ خطاؤں سے
مجبوریوں نے کتنے فرشتے بنائے ہیں
سمجھاتے قبلِ عشق تو ممکن تھا بنتی بات
ناصح غریب اب ہمیں سمجھانے آئے ہیں
کعبے میں خیریت تو ہے سب حضرتِ خمار
یہ دیر ہے جناب یہاں کیسے آئے ہیں

بیتے دنوں کی یاد بھلائے نہیں بنے - شاعر خمار بارہ بنکوی
بیتے دنوں کی یاد بھلائے نہیں بنے
یہ آخری چراغ بجھائے نہ بنے
دنیا نے جب مرا نہیں بننے دیا انہیں
پتھر تو بن گئے وہ پرائے نہیں بنے
توبہ کیے زمانہ ہوا، لیکن آج تک
جب شام ہو تو کچھ بھی بنائے نہیں بنے
پردے ہزار خندہ پیہم کے ڈالیے
غم وہ گناہ ہے کہ چھپائے نہیں بنے
یہ نصف شب یہ میکدے کا در یہ محتسب
ٹوکے کوئی تو بات بنائے نہیں بنے
جاتے تو ہیں صنم کدے سے حضرتِ خمار
لیکن خدا کرے کہ بن آئے نہ بنے

اپنی مستی، کہ ترے قرب کی سرشاری میں - شاعر ثنااللہ ظہیر
اپنی مستی، کہ ترے قرب کی سرشاری میں
اپنی مستی، کہ ترے قرب کی سرشاری میں
اب میں کچھ اور بھی آسان ہوں دشواری میں
کتنی زرخیز ہے نفرت کے لیے دل کی زمیں
وقت لگتا ہی نہیں فصل کی تیاری میں
اک تعلق کو بکھرنے سے بچانے کے لیے
میرے دن رات گزرتے ہیں اداکاری میں
وہ کسی اور دوا سے مرا کرتا ہے علاج
مبتلا ہوں میں کسی اور ہی بیماری میں
اے زمانے میں ترے اشک بھی رو لوں گا ، مگر
ابھی مصروف ہوں خود اپنی عزاداری میں
اس کے کمرے سے اٹھا لایا ہوں یادیں اپنی
خود پڑا رہ گیا لیکن کسی الماری میں
اپنی تعمیر اٹھاتے تو کوئی بات بھی تھی
تم نے اک عمر گنوادی مری مسماری میں
ہم اگر اور نہ کچھ دیر ہوا دیں ، تو یہ آگ
سانس گھٹنے سے ہی مر جائے گی چنگاری میں
تم بھی دنیا کے نکالے ہوئے لگتے ہو ظہیر
میں بھی رہتا ہوں یہیں ، دل کی عملداری میں
شاعر ثنااللہ ظہیر

اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے - ابراہیم ذوق
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے - ابراہیم ذوق
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
سامنے چشم گہر بار کے کہہ دو دریا
چڑھ کے گر آئے تو نظروں سے اتر جائیں گے
لائے جو مست ہیں تربت پہ گلابی آنکھیں
اور اگر کچھ نہیں دو پھول تو دھر جائیں گے
بچیں گے رہ گزر یار تلک کیونکر ہم
پہلے جب تک نہ دو عالم سے گزر جائیں گے
آگ دوزخ کی بھی ہو جائے گی پانی پانی
جب یہ عاصی عرق شرم سے تر جائیں گے
ہم نہیں وہ جو کریں خون کا دعویٰ تجھ سے
بلکہ پوچھے گا خدا بھی تو مکر جائیں گے
رخِ روشن سے نقاب اپنے الٹ دیکھو تم
مہر و مہ نظروں سے یاروں کی اتر جائیں گے
شعلہ آہ کو بجلی کی طرح چمکاؤں
پر یہی ڈر ہے کہ وہ دیکھ کے ڈر جائیں گے
ذوق جو مدرسہ کے بگڑے ہوئے ہیں مُلا
ان کو مہ خانہ میں لے آؤ سنور جائیں گے
منگل، 6 اگست، 2024

اردو شاعری - اپنی مستی، کہ ترے قرب کی سرشاری میں
اپنی مستی، کہ ترے قرب کی سرشاری میں
اپنی مستی، کہ ترے قرب کی سرشاری میں
اب میں کچھ اور بھی آسان ہوں دشواری میں
کتنی زرخیز ہے نفرت کے لیے دل کی زمیں
وقت لگتا ہی نہیں فصل کی تیاری میں
اک تعلق کو بکھرنے سے بچانے کے لیے
میرے دن رات گزرتے ہیں اداکاری میں
وہ کسی اور دوا سے مرا کرتا ہے علاج
مبتلا ہوں میں کسی اور ہی بیماری میں
اے زمانے میں ترے اشک بھی رو لوں گا ، مگر
ابھی مصروف ہوں خود اپنی عزاداری میں
اس کے کمرے سے اٹھا لایا ہوں یادیں اپنی
خود پڑا رہ گیا لیکن کسی الماری میں
اپنی تعمیر اٹھاتے تو کوئی بات بھی تھی
تم نے اک عمر گنوادی مری مسماری میں
ہم اگر اور نہ کچھ دیر ہوا دیں ، تو یہ آگ
سانس گھٹنے سے ہی مر جائے گی چنگاری میں
تم بھی دنیا کے نکالے ہوئے لگتے ہو ظہیر
میں بھی رہتا ہوں یہیں ، دل کی عملداری میں
مشہور اشاعتیں
-
مری زندگی پہ نہ مسکرا، میں اداس ہوں! مرے گمشدہ مرے پاس آ، میں اداس ہوں! کسی وصل میں بھی بقائے سوزشِ ہجر ہے غمِ عاشقی ذرا دور جا، میں...
-
سانس لینا بھی کیسی عادت ہے - جئیے جانا بھی کیا روایت ہے کوئی آہٹ نہیں بدن میں کہیں - کوئی سایہ نہیں ہے آنکھوں میں پاؤں بےحِس ہیں، چ...
-
میں نعرۂ مستانہ، میں شوخئ رِندانہ میں تشنہ کہاں جاؤں، پی کر بھی کہاں جانا میں طائرِ لاہُوتی، میں جوہرِ ملکُوتی ناسُوتی نے کب مُجھ کو...
-
ﻟﮍﮐﯿﻮﮞ ﻧﮯ ﺟﺐ ﮐﻼﺋﯽ ﻣﯿﮟ ﺳﺠﺎﺋﯿﮟ ﭼﻮﮌﯾﺎﮞ ﺍﮎ ﺳُﺮﻭﺭِ ﺷﻮﻕ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﮔُﻨﮕُﻨﺎﺋﯿﻦ ﭼﻮﮌﯾﺎﮞ ﻣﻮﺳﻢِ ﺑﺮﺳﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﮍﻭﮞ ﭘﮧ ﺟﮭﻮﻟﮯ ﺟﺐ ﭘﮍﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﻞ ﮐﮯ ﻧﺎﺯﻧﯿ...
لیبلز
مشہور اشاعتیں
-
مری زندگی پہ نہ مسکرا، میں اداس ہوں! مرے گمشدہ مرے پاس آ، میں اداس ہوں! کسی وصل میں بھی بقائے سوزشِ ہجر ہے غمِ عاشقی ذرا دور جا، میں...
-
سانس لینا بھی کیسی عادت ہے - جئیے جانا بھی کیا روایت ہے کوئی آہٹ نہیں بدن میں کہیں - کوئی سایہ نہیں ہے آنکھوں میں پاؤں بےحِس ہیں، چ...
-
میں نعرۂ مستانہ، میں شوخئ رِندانہ میں تشنہ کہاں جاؤں، پی کر بھی کہاں جانا میں طائرِ لاہُوتی، میں جوہرِ ملکُوتی ناسُوتی نے کب مُجھ کو...
-
ﻟﮍﮐﯿﻮﮞ ﻧﮯ ﺟﺐ ﮐﻼﺋﯽ ﻣﯿﮟ ﺳﺠﺎﺋﯿﮟ ﭼﻮﮌﯾﺎﮞ ﺍﮎ ﺳُﺮﻭﺭِ ﺷﻮﻕ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﮔُﻨﮕُﻨﺎﺋﯿﻦ ﭼﻮﮌﯾﺎﮞ ﻣﻮﺳﻢِ ﺑﺮﺳﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﮍﻭﮞ ﭘﮧ ﺟﮭﻮﻟﮯ ﺟﺐ ﭘﮍﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﻞ ﮐﮯ ﻧﺎﺯﻧﯿ...
-
تیرے غم کو جاں کی تلاش تھی تیرے جاں نثار چلے گئے تیری رہ میں کرتے تھے سر طلب، سرِ رہگزار چلے گئے تیری کج ادائی سے ہار کے شبِ اِنتظ...
-
ہم نے سُنا تھا صحنِ چمن میں کیف کے بادل چھائے ہیں ہم بھی گئے تھے جی بہلانے، اشک بہا کر آئے ہیں پُھول کھِلے تو دل مُرجھائے، شمع جلے تو ...
-
نفرتوں کے ڈر سے محبت نہ چھوڑ دینا آنسوؤں کے ڈر سے ہنسنا نہ چھوڑ دینا چاھتوں کے راستوں میں ھوتی ہےہار بھی کانٹوں کے ڈر سے تم چلنا ن...