Advertisement

جمعرات، 3 اکتوبر، 2024

دیارِ دل کی رات میں چراغ سا جلا گیا : ناصر کاظمی


دیارِ دل کی رات میں چراغ سا جلا گیا
مِلا نہیں تو کیا ہوا وہ شکل تو دکھا گیا

جدائیوں کے زخم دردِ زندگی نے بھر دیئے
تجھے بھی نیند آ گئی مجھے بھی صبر آ گیا

یہ صبح کی سفیدیاں یہ دو پہر کی زردیاں
اب آئینے میں دیکھتا ہوں میں کہاں چلا گیا

پکارتی ہیں فرصتیں کہاں گئیں وہ صحبتیں
زمیں نگل گئی انہیں یا آسمان کھا گیا

وہ دوستی تو خیر اب نصیبِ دشمناں ہوئی
وہ چھوٹی چھوٹی رنجشوں کا لطف بھی چلا گیا

یہ کس خوشی کی ریت پر غموں کی نیند آ گئی
وہ لہر کس طرف گئی یہ میں کہاں سما گیا

گئے دنوں کی لاش پر پڑے رہو گے کب تلک
اٹھو عمل کشو کہ آفتاب سر پہ آ گیا

ناصر کاظمی 



بے دِلی کیا یونہی دن گزر جائیں گے

بے دِلی کیا یونہی دن گزر جائیں گے
صرف زندہ رہے ہم تو مر جائیں گے

رقص ہے رنگ پر رنگ ہم رقص ہیں
سب بچھڑ جائیں گے سب بکھر جائیں گے

یہ خراباتیانِ خرد باختہ
صبح ہوتے ہی سب کام پر جائیں گے

کتنی دلکش ہو تم کتنا دل جُو ہوں میں
کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مر جائیں گے

ہے غنیمت کہ اسرار ہستی سے ہم
بے خبر آئے ہیں بے خبر جائیں گے

جون ایلیا



ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے : عالب

ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
تمھیں کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے

نہ شعلے میں یہ کرشمہ نہ برق میں یہ ادا
کوئی بتاؤ کہ وہ شوخِ تند خو کیا ہے

یہ رشک ہے کہ وہ ہوتا ہے ہم سخن تم سے
وگرنہ خوفِ بد آموزیٔ عدو کیا ہے

چپک رہا ہے بدن پر لہو سے پیراہن
ہمارے جیب کو اب حاجتِ رفو کیا ہے

جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہوگا
کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے

رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جب آنکھ سے ہی نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے

وہ چیز جس کے لیے ہم کو ہو بہشت عزیز
سوائے بادۂ گل فامِ مشک بو کیا ہے

پیوں شراب اگر خم بھی دیکھ لوں دو چار
یہ شیشہ و قدح و کوزہ و سبو کیا ہے

رہی نہ طاقتِ گفتار اور اگر ہو بھی
تو کس امید پہ کہیے کہ آرزو کیا ہے

ہوا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالبؔ کی آبرو کیا ہے

ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے


بے سبب بات بڑھانے کی ضرورت کیا ہے


بے سبب بات بڑھانے کی ضرورت کیا ہے
ہم خفا کب تھے منانے کی ضرورت کیا ہے

آپ کے دم سے تو دنیا کا بھرم ہے قائم
آپ جب ہیں تو زمانے کی ضرورت کیا ہے

تیرا کوچہ ترا در تیری گلی کافی ہے
بے ٹھکانوں کو ٹھکانے کی ضرورت کیا ہے

دل سے ملنے کی تمنا ہی نہیں جب دل میں
ہاتھ سے ہاتھ ملانے کی ضرورت کیا ہے


شاھد کبیر


بدھ، 7 اگست، 2024

جھنجھلائے ہیں، لجائے ہیں پھر مسکرائے ہیں - شاعر خمار بارہ بنکوی

جھنجھلائے ہیں، لجائے ہیں پھر مسکرائے ہیں

جھنجھلائے ہیں، لجائے ہیں پھر مسکرائے ہیں
کس اہتمام سے انہیں ہم یاد آئے ہیں

دیر و حرم کے حبس کدوں کے ستائے ہیں
ہم آج مے کدے کی ہوا کھانے آئے ہیں

اب جا کے آہ کرنے کے آداب آئے ہیں
دنیا سمجھ رہی ہے کہ ہم مسکرائے ہیں

گُزرے ہیں مے کدے سے جو توبہ کے بعد ہم
کچھ دُور عادتاً بھی قدم لڑکھڑائے ہیں

اے جوشِ گریہ دیکھ! نہ کرنا خجل مجھے
آنکھیں مری ضرور ہیں، آنسو پرائے ہیں

اے موت! اے بہشت سکوں! آ خوش آمدید
ہم زندگی میں پہلے پہل مسکرائے ہیں

جتنی بھی مے کدے میں ہے ساقی پلا دے آج
ہم تشنہ کام زُہد کے صحرا سے آئے ہیں

انسان جیتے جی کریں توبہ خطاؤں سے
مجبوریوں نے کتنے فرشتے بنائے ہیں

سمجھاتے قبلِ عشق تو ممکن تھا بنتی بات
ناصح غریب اب ہمیں سمجھانے آئے ہیں

کعبے میں خیریت تو ہے سب حضرتِ خمار
یہ دیر ہے جناب یہاں کیسے آئے ہیں

شاعر خمار بارہ بنکوی



بیتے دنوں کی یاد بھلائے نہیں بنے - شاعر خمار بارہ بنکوی

بیتے دنوں کی یاد بھلائے نہیں بنے

بیتے دنوں کی یاد بھلائے نہیں بنے
یہ آخری چراغ بجھائے نہ بنے

دنیا نے جب مرا نہیں بننے دیا انہیں
پتھر تو بن گئے وہ پرائے نہیں بنے

توبہ کیے زمانہ ہوا، لیکن آج تک
جب شام ہو تو کچھ بھی بنائے نہیں بنے

پردے ہزار خندہ پیہم کے ڈالیے
غم وہ گناہ ہے کہ چھپائے نہیں بنے

یہ نصف شب یہ میکدے کا در یہ محتسب
ٹوکے کوئی تو بات بنائے نہیں بنے

جاتے تو ہیں صنم کدے سے حضرتِ خمار
لیکن خدا کرے کہ بن آئے نہ بنے

شاعر خمار بارہ بنکوی




اپنی مستی، کہ ترے قرب کی سرشاری میں - شاعر ثنااللہ ظہیر

 اپنی مستی، کہ ترے قرب کی سرشاری میں

اپنی مستی، کہ ترے قرب کی سرشاری میں

اب میں کچھ اور بھی آسان ہوں دشواری میں

کتنی زرخیز ہے نفرت کے لیے دل کی زمیں

وقت لگتا ہی نہیں فصل کی تیاری میں

اک تعلق کو بکھرنے سے بچانے کے لیے

میرے دن رات گزرتے ہیں اداکاری میں

وہ کسی اور دوا سے مرا کرتا ہے علاج

مبتلا ہوں میں کسی اور ہی بیماری میں

اے زمانے میں ترے اشک بھی رو لوں گا ، مگر

ابھی مصروف ہوں خود اپنی عزاداری میں

اس کے کمرے سے اٹھا لایا ہوں یادیں اپنی

خود پڑا رہ گیا لیکن کسی الماری میں

اپنی تعمیر اٹھاتے تو کوئی بات بھی تھی

تم نے اک عمر گنوادی مری مسماری میں

ہم اگر اور نہ کچھ دیر ہوا دیں ، تو یہ آگ

سانس گھٹنے سے ہی مر جائے گی چنگاری میں

تم بھی دنیا کے نکالے ہوئے لگتے ہو ظہیر

میں بھی رہتا ہوں یہیں ، دل کی عملداری میں


شاعر ثنااللہ ظہیر




اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے - ابراہیم ذوق

 اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے - ابراہیم ذوق


اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے

مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے


سامنے چشم گہر بار کے کہہ دو دریا

چڑھ کے گر آئے تو نظروں سے اتر جائیں گے


لائے جو مست ہیں تربت پہ گلابی آنکھیں

اور اگر کچھ نہیں دو پھول تو دھر جائیں گے


بچیں گے رہ گزر یار تلک کیونکر ہم

پہلے جب تک نہ دو عالم سے گزر جائیں گے


آگ دوزخ کی بھی ہو جائے گی پانی پانی

جب یہ عاصی عرق شرم سے تر جائیں گے


ہم نہیں وہ جو کریں خون کا دعویٰ تجھ سے

بلکہ پوچھے گا خدا بھی تو مکر جائیں گے


رخِ روشن سے نقاب اپنے الٹ دیکھو تم

مہر و مہ نظروں سے یاروں کی اتر جائیں گے


شعلہ آہ کو بجلی کی طرح چمکاؤں

پر یہی ڈر ہے کہ وہ دیکھ کے ڈر جائیں گے


ذوق جو مدرسہ کے بگڑے ہوئے ہیں مُلا

ان کو مہ خانہ میں لے آؤ سنور جائیں گے




منگل، 6 اگست، 2024

اردو شاعری - اپنی مستی، کہ ترے قرب کی سرشاری میں

 اپنی مستی، کہ ترے قرب کی سرشاری میں

اپنی مستی، کہ ترے قرب کی سرشاری میں

اب میں کچھ اور بھی آسان ہوں دشواری میں

کتنی زرخیز ہے نفرت کے لیے دل کی زمیں

وقت لگتا ہی نہیں فصل کی تیاری میں

اک تعلق کو بکھرنے سے بچانے کے لیے

میرے دن رات گزرتے ہیں اداکاری میں

وہ کسی اور دوا سے مرا کرتا ہے علاج

مبتلا ہوں میں کسی اور ہی بیماری میں

اے زمانے میں ترے اشک بھی رو لوں گا ، مگر

ابھی مصروف ہوں خود اپنی عزاداری میں

اس کے کمرے سے اٹھا لایا ہوں یادیں اپنی

خود پڑا رہ گیا لیکن کسی الماری میں

اپنی تعمیر اٹھاتے تو کوئی بات بھی تھی

تم نے اک عمر گنوادی مری مسماری میں

ہم اگر اور نہ کچھ دیر ہوا دیں ، تو یہ آگ

سانس گھٹنے سے ہی مر جائے گی چنگاری میں

تم بھی دنیا کے نکالے ہوئے لگتے ہو ظہیر

میں بھی رہتا ہوں یہیں ، دل کی عملداری میں





مشہور اشاعتیں

مشہور اشاعتیں