بہترین غزلیں لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
بہترین غزلیں لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

جمعہ، 5 اگست، 2016

یہاں جو ہے کہاں اُس کا نشاں باقی رہے گا

غزل
یہاں جو ہے کہاں اُس کا نشاں باقی رہے گا
مگر جو کچھ نہیں، وہ سب یہاں باقی رہے گا
سفر ہو گا سفر کی منزلیں معدوم ہوں گی
مکاں باقی نہ ہو گا لا مکاں باقی رہے گا
کبھی قریہ بہ قریہ اور کبھی عالم بہ عالم
غبارِ ہجرتِ بے خانماں باقی رہے گا
ہمارے ساتھ جب تک درد کی دھڑکن رہے گی
ترے پہلو میں ہونے کا گماں باقی رہے گا
بہت بے اعتباری سے گزر کر دل ملے ہیں
بہت دن تک تکلف درمیاں باقی رہے گا
رہے گا آسماں جب تک زمیں باقی رہے گی
زمیں قائم ہے جب تک آسماں باقی رہے گا
یہ دنیا حشر تک آباد رکھی جا سکے گی
یہاں ہم سا جو کوئی خوش بیاں باقی رہے گا
جنوں کو ایسی عمرِ جاوداں بخشی گئی ہے
قیامت تک گروہِ عاشقاں باقی رہے گا
تمدن کو بچا لینے کی مہلت اب کہاں ہے
سر گرداب کب تک بادباں باقی رہے گا
کنارہ تا کنارہ ہو کوئی یخ بستہ چادر
مگر تہہ میں کہیں آبِ رواں باقی رہے گا
ہمارا حوصلہ قائم ہے جب تک سائباں ہے
خدا جانے کہاں تک سائباں باقی رہے گا
تجھے معلوم ہے یا کچھ ہمیں اپنی خبر ہے
سو ہم مر جائیں گے تُو ہی یہاں باقی رہے گا


بدھ، 27 جولائی، 2016

میں نعرۂ مستانہ، میں شوخئ رِندانہ: مکمل غزل پڑھیں

میں نعرۂ مستانہ، میں شوخئ رِندانہ
میں تشنہ کہاں جاؤں، پی کر بھی کہاں جانا
میں طائرِ لاہُوتی، میں جوہرِ ملکُوتی
ناسُوتی نے کب مُجھ کو، اس حال میں پہچانا
میں سوزِ محبت ہوں، میں ایک قیامت ہوں
میں اشکِ ندامت ہوں، میں گوہرِ یکدانہ
کس یاد کا صحرا ہوں، کس چشم کا دریا ہوں
خُود طُور کا جلوہ ہوں، ہے شکل کلیمانہ
میں شمعِ فروزاں ہوں، میں آتشِ لرزاں ہوں
میں سوزشِ ہجراں ہوں، میں منزلِ پروانہ
میں حُسنِ مجسّم ہوں، میں گیسوئے برہم ہوں
میں پُھول ہوں شبنم ہوں، میں جلوۂ جانانہ
میں واصفِؔ بسمل ہوں، میں رونقِ محفل ہوں
اِک ٹُوٹا ہوا دل ہوں، میں شہر میں ویرانہ


بدھ، 6 جولائی، 2016

اَدائیں حشر جگائیں، وُہ اِتنا دِلکش ہے،

اَدائیں حشر جگائیں، وُہ اِتنا دِلکش ہے،
خیال حرف نہ پائیں، وُہ اِتنا دِلکش ہے،

چمن کو جائے تو دَس لاکھ نرگسی غنچے،
زَمیں پہ پلکیں بچھائیں، وُہ اِتنا دِلکش ہے،

اُداس غنچوں نے جاں کی اَمان پا کے کہا،
لبوں سے تتلی اُڑائیں، وُہ اِتنا دِلکش ہے،

یہ شوخ تتلیاں ، بارِش میں اُس کو دیکھیں تو،
اُکھاڑ پھینکیں قبائیں، وُہ اِتنا دِلکش ہے،

حلال ہوتی ہے پہلی نظر تو حشر تلک،
حرام ہو جو ہٹائیں، وُہ اِتنا دِلکش ہے،

غزال نقشِ قدم چوم چوم کر پوچھیں،
کہاں سے سیکھی اَدائیں، وُہ اِتنا دِلکش ہے،

جفا پہ اُس کی فدا کر دُوں سوچے سمجھے بغیر،
ہزاروں ، لاکھوں وَفائیں، وُہ اِتنا دِلکش ہے،

تمام آئینے حیرت میں غرق سوچتے ہیں،
اُسے یہ کیسے بتائیں، وُہ اِتنا دِلکش ہے

ہفتہ، 2 جولائی، 2016

ابھی سورج نہیں ڈوبا، ذرا شام ہونے دو

ابھی سورج نہیں ڈوبا، ذرا شام ہونے دو 
میں خود لوٹ جائوں گا، مجھے ناکام ہونے دو

مجھے بدنام کرنے کے بہانے ڈھونڈتے ہو کیوں 
میں خود ہوجائوں گا بدنام، پہلے نام ہونے دو

ابھی مجھ کو نہیں کرنا ہے اعتراف شکست تم سے 
میں سب تسلیم کرلوں گا، یہ چرچا عام ہونے دو

میری ہستی نہیں انمول پھربھی بک نہیں سکتا 
وفائیں بیچ لینا، بس ذرا نیلام ہونے دو

میرے آغاز میں ہی کیوں حوصلہ چھوڑ بیٹھے ہو 
میں سب کچھ جیت جاءو گے، ذرا انجام ہونے دو


جمعرات، 23 جون، 2016

آنسوؤں کے ڈر سے ہنسنا نہ چھوڑ دینا

نفرتوں کے ڈر سے محبت نہ چھوڑ دینا
آنسوؤں کے ڈر سے ہنسنا نہ چھوڑ دینا

چاھتوں کے راستوں میں ھوتی ہےہار بھی
کانٹوں کے ڈر سے تم چلنا نہ چھوڑ دینا

جینا مشکل تو ھے ان ظالموں کے شہر میں
مرنے کے ڈر سے تم جینا نہ چھوڑ دینا

ملنے سے پہلے بچھٹرنے کا خوف بھی ہوگا
بچھٹرنے کے ڈر سے تم ملنا نہ چھوڑ دینا

شاعر نامعلوم


بدھ، 22 جون، 2016

یہ دولت بھی لے لو، یہ شہرت بھی لے لو.. مگر مجھ کو لوٹا دو بچپن کا ساون

یہ دولت بھی لے لو، یہ شہرت بھی لے لو
بھلے چھین لو مجھ سے میری جوانی
مگر مجھ کو لوٹا دو بچپن کا ساون
وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی

محلے کی سب سے پرانی نشانی
وہ بڑھیا جسے بچے کہتے تھے نانی
وہ نانی کی باتوں میں پریوں کا ڈھیرا
وہ چہرے کی جہریوں میں میں صدیوں کا پھیرا
بھلائے نہیں بھول سکتا ہے کوئی
وہ چھوٹی سی راتیں وہ لمبی کہانی

کھڑی دھوپ میں اپنے گھر سے نکلنا
وہ چڑیاں وہ بلبل وہ تتلی پکڑنا
وہ گھڑیا کی شادی میں لڑنا جھگڑنا
وہ جھولوں سے گرنا وہ گر کہ سنبھلنا
وہ پیتل کے چھلوں کے پیارے سے تحفے
وہ ٹوٹی ہوئی چوڑیوں کی نشانی

کبھی ریت کے اونچے ٹیلوں پہ جانا
گھروندے بنانا بنا کہ مٹانا
وہ معصوم چاہت کی تصویر اپنی
وہ خوابوں خیالوں کی جاگیر اپنی
نہ دنیا کا غم تھا نہ رشتوں کا بندھن
بڑی خوبصورت تھی وہ زندگانی




مشہور اشاعتیں

مشہور اشاعتیں