
وہ کیا دن تھےمدینے کی فضا میں تھا قیام اپنا
وہ کیا دن تھےمدینے کی فضا میں تھا قیام اپنا
درِ سرکار پہ سرتھا فلک پہ تھا مقام اپنا
زمانے بھر کے رنج وغم سے بوجھل دل تھا لایا میں
تیرے جلووں کی لذت نے بھلایا غم تمام اپنا
ہے میخواروں کاجھرمٹ ہرطرف میخانے میں ساقی
تیری نظروں سے بھرتا ہے یہاں ہر پیاسا جام اپنا
گنہگارو ! چلے آو مدینے مغفرت پانے
نویدِ جاوکَ سے کردیا رب نے انعام اپنا
وہ سایہ سبز گنبد کا، ٹھکانہ غم کے ماروں کا
سوالی بن کے قدموں میں پڑے رہنا تھا کام اپنا
ہوائیں بھی مودب ہیں، فضائیں باادب سی ہیں
یقینا یہ بھی رکھتی ہیں یہاں دھیما خرام اپنا
مدینے کے مسافر تیری گردِ پا کے میں صدقے
سنہری جالی کے آگے تو جا کہنا سلام اپنا
میسر آپ کے در کی فقیری ہو مجھے ایسی
مدینہ شہر کے منگتوں کے منگتوں میں ہو نام اپنا
مزہ جب ہے رضاؔ محشر میں آقا اتنا فرما دیں
فرشتو! چھوڑ دو اس کو، کہ یہ بھی ہے غلام اپنا