فيض احمد فيضؔ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
فيض احمد فيضؔ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

بدھ، 27 جولائی، 2016

دشتِ تنہائی میں، اے جانِ جہاں، لرزاں ہیں

دشتِ تنہائی میں، اے جانِ جہاں، لرزاں ہیں
تیری آواز کے سائے تیرے ہونٹوں کے سَراب
دشتِ تنہائی میں، دُوری کے خس و خاک تلے

کِھل رہے ہیں، تیرے پہلُو کے سمن اور گلاب
اُٹھ رہی ہے کہیں قُربت سے تیری سانس کی آنچ
اپنی خُوشبو میں سُلگتی ہوئی مدھم مدھم

دُور اُفق پار، چمکتی ہوئی قطرہ قطرہ
گِر رہی ہے تیری دلدار نظر کی شبنم

اس قدر پیار سے، اے جانِ جہاں، رکھا ہے
دل کے رُخسار پہ اس وقت تیری یاد نے ہات

یُوں گُماں ہوتا ہے، گرچہ ہے ابھی صبحِ فراق
ڈھل گیا ہِجر کا دن، آ بھی گئی وصل کی رات

فيض احمد فيضؔ


تیرے غم کو جاں کی تلاش تھی تیرے جاں نثار چلے گئے

تیرے غم کو جاں کی تلاش تھی تیرے جاں نثار چلے گئے 
تیری رہ میں کرتے تھے سر طلب، سرِ رہگزار چلے گئے 

تیری کج ادائی سے ہار کے شبِ اِنتظار چلی گئی 
میرے ضبطِ حال سے رُوٹھ کر میرے غمگسار چلے گئے 

نہ سوالِ وصل، نہ عرضِ غم، نہ حکائتیں نہ شکائتیں 
تیرے عہد میں دلِ زار کے سبھی اِختیار چلے گئے 

نہ رہا جنونِ وفا، یہ رَسَن یہ دار کرو گے کیا 
جنہیں جرمِ عشق پہ ناز تھا وہ گناہگار چلے گئے 

یہ ہمیں تھے جن کے لباس پر سرِ رہ سیاہی لکھی گئی 
یہی داغ تھے جو سجا کے ہم سرِ بزمِ یار چلے گئے

فيض احمد فيضؔ


مشہور اشاعتیں

مشہور اشاعتیں