جمعہ، 17 جون، 2016

ثبات بحرِ جہاں میں اپنا فقط مثالِ حباب دیکھا

ثبات بحرِ جہاں میں اپنا فقط مثالِ حباب دیکھا
نہ جوش دیکھا ، نہ شور دیکھا ، نہ موج دیکھی ، نہ آب دیکھا
ہماری آنکھوں نے بھی تماشا عجب عجب انتخاب دیکھا
برائی دیکھی ، بھلائی دیکھی ، عذاب دیکھا ، ثواب دیکھا
نہ دل ہی ٹھہرا ، نہ آنکھ جھپکی ، نہ چین پایا ، نہ خواب آیا
خدا دکھائے نہ دشمنوں کو جو دوستی میں عذاب دیکھا
سرور میں جس سے جاں محزوں اُسی کو گردش وہی ہے پرخوں
کہ چرخ زن مثل دور گردوں بد نام جام شراب دیکھا
نظر میں ہے تیرے کبریائی سما گئی تیری خودنمائی
اگرچہ دیکھی بُہت خُدائی مگر نہ تیرا جواب دیکھا
پڑے ہوئے تھے ہزار پردے کلیم دیکھو تو جب بھی غش تھے
ہم اُس کی آنکھوں کے صدقے جس نے وہ جلو ہ یوں بے حجاب دیکھا
جو راہ میں تیرے آکے بیٹھے وہ فکر دیر و حرم سے چھوٹے
کہ تیرے کوچے کے ساکنوں نے بہشت میں بھی عذاب دیکھا
یہ دل تو اے عشق گھر ہے تیرا کہ جس کو تو بگاڑ ڈالا
مکاں سے تالا مکاں جو دیکھا تجھی کو خانہ خراب دیکھا
سرورو عیش و نشاط کیسی بدل گئےرنگ ہی جہاں کے
سنانہ تھا کان سے جو ہم نے وہ آنکھ سے انقلاب دیکھا
جو تجھ کو پایا تو کچھ نہ پایا یہ خاکدان ہم نے خاک پایا
جو تجھ کو دیکھا تو کچھ نہ دیکھا تمام عالم خراب دیکھا
شراب غفلت سے داغ غش تھے دکھائے غفلت نے کیاتماشے
کہ سوتے سوتے جو چونک اُٹھے مگر کوئی تم نے خواب دیکھا
(داغ دہلوی)


کوئی تبصرے نہیں:
Write تبصرے

مشہور اشاعتیں

مشہور اشاعتیں