پیر، 20 جون، 2016

مجھ کو تو یہ بھی کہنے کی مہلت نہیں ملی

تم نے یہ کہہ دیا کہ محبت نہیں ملی
مجھ کو تو یہ بھی کہنے کی مہلت نہیں ملی

نیندوں کے دیس جاتے کوئی خواب دیکھتے
لیکن دیا جلانے سے فرصت نہیں ملی

تجھ کو تو خیر شہر کے لوگوں کا خوف تھا
اور مجھ کو اپنے گھر سے اجازت نہیں ملی

پھر اختلافِ رائے کی صورت نکل پڑی
اپنی یہاں کسی سے بھی عادت نہیں ملی

بیزار یوں ہوئے کہ ترے عہد میں ہمیں
سب کچھ ملا سکون کی دولت نہیں ملی

کوئی تبصرے نہیں:
Write تبصرے

مشہور اشاعتیں

مشہور اشاعتیں